سیاست کے رنگ

یہ مناظر ٹیلی ویژن اسکرینز پر کئی بار براہ راست نشر ہوئے

عمران خان تقریر کے لیے آتے
نواز شریف پر تنقید شروع کرتے
مگر جلد ہی پی ٹی آئی کارکنان ڈیزل ڈیزل کے نعرے لگانا شروع کردیتے
عمران خان کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی
اور وہ جے یو آئی ف کے سربراہ کو ڈیزل قرار دیتے ہوئے ان پر چڑھ دوڑتے

سن 2011 کے بعد سے تحریک انصاف کے جلسوں میں عمران خان مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل کے نام سے ہی پکارا کرتے تھے

دوسری جانب مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے رکھا تھا
وہ تحریک انصاف کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے
سن 2018 میں تحریک انصاف انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تو فضل الرحمان نے نتائج ماننے سے انکار کردیا
انہوں نے حکومت گرانے کی دھمکی کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کیا اور دھرنا دے دیا
دھرنا تو ناکام رہا مگر دونوں جماعتوں کے درمیان دشمنی مزید گہری ہوگئی
مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی حکومت کے خلاف بننے والے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ تھے
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو مولانا فضل الرحمان یہاں بھی پیش پیش تھے

تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کے خاتمے میں مولانا فضل الرحمان کا کردار مرکزی تھا کہ انہوں نے سڑکوں کو مسلسل گرم رکھا اور اپوزیشن جماعتوں کو اپنے گرد متحد رکھا، حکومت گری تو نئے سیٹ اپ میں جے یو آئی ف کو بھی شیئر ملا

مولانا اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ناراضگی رواں سال فروری میں ہونے والے انتخابات کے بعد سامنے آئی ۔ مولانا کے ناقدین کی رائے میں وہ اس بات پر ناراض ہیں کہ انہیں کیوں اسی طرح نہیں نوازا گیا جس طرح ن لیگ اور ایم کیو ایم کو فائدہ پہنچایا گیا ۔ درحقیقت جے یو آئی ف کی سیٹیں 2018 کے مقابلے میں کم ہوگئیں جبکہ ان کی اتحادی جماعتیں نہ صرف ان سے آگے نکل گئیں بلکہ مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بھی بنالیں

اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی پی حکومت میں ہیں جب کہ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن میں ہیں ۔ پی ٹی آئی اور جے یو آئی ف کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں ۔ دونوں جماعتوں کے قائدین آپس میں ملاقاتیں کرتے ہیں ۔ پی ٹی آئی رہنما مولانا فضل الرحمان کے پیچھے نماز بھی پڑھ رہے ہیں بلکہ آئینی ترمیم کے خلاف ان کے موقف کو کھل کر سراہ بھی رہے ہیں

کل کے دشمن آج ایک پیج پر ہیں ۔۔ یہی سیاست ہے
سیاسی کارکنان کو سمجھنا چاہیے کہ اپنے قائدین کی اندھی محبت میں ایک دوسروں کو گالیاں دینے سے پہلے سوچ لیں کہ جسے آج آپ گالی دے رہے ہیں کل اسی کی امامت میں جدوجہد کرنا پڑسکتی ہے

اپنا تبصرہ لکھیں