ملک کے معروف سائنسدان ڈاکٹر عطاالرحمان نے اپنے اخباری مضمون ” سنگاپور کی مثالی ترقی” میں بتایا ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک سنگاپور ہے جو کراچی کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی (تقریباً 50 لاکھ) پر مشتمل ہے اور قدرتی وسائل سے آراستہ نہیں ہے لیکن اسکی برآمدات آج 400ارب ڈالر سالانہ ہیں،جبکہ پاکستان کی برآمدات کئی سال سے تقریباً 32ارب ڈالر پر منجمد ہیں۔ آج سنگاپور کی دنیا میں انتہائی ترقی یافتہ معیشت ہے جہاں کی فی کس آمدنی برطانیہ یا جرمنی سے بھی زیادہ ہے ۔ یہ حیران کن ترقی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، جدت طرازی، اور کاروبار کیساتھ ساتھ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری پر بھرپور توجہ سے ممکن ہوئی ۔سنگاپور کی پر بصیرت حکومت نے اقتصادی ترقی کیلئے اچھی تعلیمیافتہ افرادی قوت کی اہمیت اور ملک میں اعلی ٰٹیکنالوجی کی ضرورت کومد نظر رکھتے ہوئے تعلیم میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی۔ یہی وجہ ہے کہ سنگاپور کے سالانہ بجٹ کا تقریباً 20فیصد تعلیم کیلئے مختص ہے۔ ملک کا تعلیمی نظام ایک سخت نصاب پر مشتمل ہے جس میں ریاضی، سائنس ،ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ کیونکہ تعلیم ہی سنگاپور کی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی کا سنگ بنیاد رہی ہے۔ سنگاپور کا مضبوط تعلیمی نظام اعلیٰ تکنیکی صنعت کیلئے درکار انتہائی ہنر مند افرادی قوت کی افزائش میں انتہائی کامیاب رہا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی عالمی مسابقتی رپورٹ کے مطابق سنگاپور اپنے تعلیمی نظام کے معیار کے حوالے سے دنیا میں اول نمبر پر ہے۔ سنگاپور نے تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے جو اہم اقدامات کیے، ان میں اساتذہ کی تربیت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری شامل ہے۔ حکومت اساتذہ کو مسلسل پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع فراہم کرتی ہے، جس میں تدریس اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت بھی شامل ہے۔ حکومت اساتذہ کی قابلیت کو مزید بہتر کرنے اور جدید تقاضوں کیساتھ ہم آہنگ کرنے کیلئے مالی مراعات بھی فراہم کرتی ہے۔
سنگاپور نے تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ایک اور قدم اٹھایا ہے وہ اعلیٰ مرکزی نظام تعلیم کی ترقی ہے۔ یہ مرکزی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام طلباء کو انکے سماجی و اقتصادی پس منظر سے قطع نظر معیاری تعلیم حاصل ہو۔ سنگاپور کی حکومت نے ایک سخت نصاب تیار کرنے میں بھی سرمایہ کاری کی ہے جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی پر مشتمل ہے۔ یہ نصاب طلباء کو ان مہارتوں سے آراستہ کرنے کیلئے تیار کیا گیا ہے جو انہیں 21ویں صدی کی معیشت میں کامیابی کیلئے درکار ہیں