کے تھری بناتے وقت جون 2003 میں کے فور کا پی سی ٹو بن گیا تھا،22 سال گزر گئے کے فور نہ بن سکا! کے تھری بروقت مکمل ہونے کا کریڈٹ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کو جاتا ہے پانی پر کانفرنس میں ماہرین کی گفتگو رپورٹ: محمد حارث

کے تھری بناتے وقت ہی جون 2003
میں کے فور کا پی سی ٹو بن گیا تھا،
22 سال گزر گئے کے فور نہ بن سکا!
کانفرنس کا احوال

بیس سال گزر گئے مگر کراچی کو پانی کی فراہمی میں ایک بوند کا اضافہ نہیں ہوسکا۔ شہر کی آبادی اس عرصے میں بڑھ کر تین کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کراچی کو درپیش پانی کے بحران اور اس کے حل کے لیے 31 مئی 2025 کو مقامی ہوٹل میں “پاکستان انجینیئرز فورم” کے زیر اہتمام کانفرنس میں ماہرین آب ، کاروباری و سیاسی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا

کے فور کیوں سست روی کا شکار؟

پانی کے منصوبے کے تھری کے ڈیزائنر اور کے فور کے پراجیکٹ منیجر ڈاکٹر محمد بشیر لاکھانی نے تقریب سے خطاب کے دوران انکشاف کیا کہ جب ہم کے تھری منصوبے پر کام کررہے تھے تو اسی وقت ہی اس بات کا اندازہ کرلیا تھا کہ ہر پانچ سال بعد شہر کو سو ملین گیلن پانی کی اضافی ضرورت ہوگی۔ یوں کے تھری کے ساتھ ساتھ کے فور کا پی سی ٹو بھی بنالیا گیا تھا۔ کے تھری پاکستان کا وہ منفرد پراجیکٹ ہے جو مقررہ وقت اور مقررہ بجٹ میں مکمل ہوا اور اس کا کریڈٹ اس وقت کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان کو جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کے فور منصوبہ بعد میں تاخیر کا شکار ہوتا رہا مگر اب یہ منصوبہ آئندہ سال کے وسط تک مکمل ہوجائے گا مگر شہر کو پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آگمینٹیشن کا نظام بھی جلد از جلد مکمل کیا جائے۔

شہر کی تقسیمِ آب کا بوسیدہ نظام

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سابق ایم ڈی پروفیسر شاہد سلیم نے شہر کے واٹر ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک پر ایک جامع تجزیہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا موجودہ پانی کی تقسیم کا نظام فرسودہ ہو چکا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ لیے گئے تو مستقبل میں صورتحال مزید ابتر ہونے کا اندیشہ ہے

بارش کا پانی، ضیاع یا ذریعہ؟

پروفیسر NED یونیورسٹی ڈاکٹر عمران احمد نے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی تکنیک ” انجییکشن ویلز” کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے بنوری ٹاؤن، این ای ڈی گرلز ہوسٹل اور شہر کی 17 مساجد میں یہ منصوبہ کام کررہا ہے۔ بارش کا پانی اگر زمین میں اتارا جائے تو زیر زمین پانی کا لیول برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میئر کراچی کو کراچی میں نیپا سمیت ستائیس مقامات پر انجیکشن ویلز بنانے کی تجویز پیش کی جاچکی ہے

واٹر ٹینکر مافیا اور حکومتی نااہلی
صحافی مونس احمد نے پانی کی قلت کو ایک سیاسی اور معاشی مسئلہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ واٹر ٹینکر مافیا، بدعنوانی، اور حکومتی نااہلی نے کراچی کے شہریوں کو پانی کے لیے ترسا دیا ہے۔ پانی ایک بنیادی انسانی حق ہے، جو اب نفع بخش کاروبار میں تبدیل ہو چکا ہے۔

درد اپنوں نے دیا: تاخیر زدہ منصوبے اور کراچی کی محرومی
صدر کے سی سی آئی جاوید بلوانی نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ کراچی کے ترقیاتی منصوبے دہائیوں سے ادھورے پڑے ہیں۔ انہوں نے K-IV، کراچی سرکلر ریلوے، اور بائی پاسز جیسے منصوبوں کی مثالیں دیتے ہوئے کہا:
“ہماری ورکنگ لائف 35 سال کی ہوتی ہے، اور ایک منصوبہ اتنے ہی سالوں میں مکمل ہوتا ہے۔ ”

امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور ماضی کی حکومتوں و حکمران پارٹیوں کی بد انتظامی، نا اہلی اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے فقدان اور عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کے باعث پیاسا ہے ۔ شہریوں کو پانی میسر نہیں، کراچی دنیا کا 5واں بڑا شہر ہے، کراچی کی آبادی بلا مبالغہ ساڑھے 3 کروڑ ہے لیکن نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ملکر شہر کی آبادی کو کم ظاہر کرکے شہریوں کے حق نمائندگی اور وسائل پر ڈاکا ڈالاہے

اپنا تبصرہ لکھیں