ملک کے ممتاز صحافی اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے روزنامہ جنگ میں شائع آرٹیکل میں لکھا ہے کہ کسی زمانے میں تو ن کی سیاست اور اثر و رسوخ کا گڑھ ہی لاہور چیمبر آف کامرس ہوا کرتا تھا مگر اب ایسا کچھ نہیں۔ الیکشن 2024ء میں پنجابی صنعت کاروں کے ایک گروہ نے ن لیگ کو ایک ارب روپے کا فنڈ دیا تھا مگر ن لیگ میں ان کو رسوخ اور پذیرائی نہ مل سکی۔ گزشتہ چند سال سے صنعت کاروں اور تاجروں کے دو متبادل گروہوں نے جنم لیا ہے ایک کی سربراہی ایس ایم تنویر کے پاس ہے انکے والد ایس ایم منیر تاجروں کی سیاست کے پرانے کردار تھےوہ خود ن، پیپلزپارٹی اور فوج تینوں کو تاجروں کے مفاد کیلئےبات چیت پر آمادہ کر لیا کرتے تھے۔ ایس ایم تنویر محسن نقوی کی نگران کابینہ میں صوبائی وزیر تھے، اپٹما کے سرپرست گوہر اعجاز انکے سمدھی ہیں یہ ایک طاقتور بزنس لابی ہے، سوائے لاہور چیمبر کے باقی ملک کے منتخب چیمبرز کی اکثریت انہی کے گروپ سے تعلق رکھتی ہے انکے مخالف گروپ نے انہیں لاہور چیمبر میں ہرا دیا ہے لیکن مجموعی طور پر قیادت انہی کے پاس ہے یہ گروپ اس وقت ن کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کا حامل ہے اور فیلڈ مارشل عاصم منیر سے بھی ان کاگاہے گاہےنہیں بلکہ مسلسل رابطہ ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ تاجروں اور صنعت کاروں کی اکثریت پچھلے 47برسوں یعنی 1977ء تا 2024ء ،سے نون کی سیاست کی حامی رہی ہے بلکہ جنرل مشرف کے دور میں جب نون اور فوج میں تضاد تھا تب بھی تاجروں کی اکثریت نے وفاداری نہیں بدلی تھی مگراب ایسا لگ رہا ہے کہ نون کی تاجروں اور صنعت کاروں سے مکمل بے اعتنائی اپنا اثر چھوڑ رہی ہے، ٹاپ لیڈر شپ کا تاجروں اور صنعت کاروں کی لیڈر شپ سے رابطہ ہی منقطع ہو چکا ہے، نون کی سیاست کا اثاثہ یہی تاجر اور صنعت کار رہے ہیں اگر ن اور ان میں عدم توجہی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو کچےدھاگے سے جڑا یہ نام نہاد رشتہ بھی کسی دن ٹوٹ جائے گا، یہ رشتہ کئی دہائیوں کے تجربات سے گزر کر اب کچھ نیا اثر دکھانے والا ہے۔ تاجروں کی جیت مقتدرہ کی وجہ سے ہوئی ہے سیاست کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاست سے تو انہیں شکایت تھی اور اس شکایت کا مداوا مقتدرہ نے کرکے ایک موثر گروہ کواپنے حصار میں لے لیا ہے۔